Islahih_writer

Add To collaction

اکا کی مت پچھئے, اب کون اکا کو پوچھتا ہے

اکتوبرکی صبح تھی ،موسم خوشگوا ر تھا ، سورج پوری طرح نکلا نہیں  تھا،  ابھی اس کی لالی آسمان کے ایک حصے میں پھیلی ہوئی تھی ۔  پتیوں پر شبنم کے قطرے تھے ، گھاس بھی نم تھی،پرندے چہچہارہے تھے۔ آبادی کے باہر سڑک پر چہل پہل تھی ، لو گ آجا رہے تھے، زیادہ تر لوگ پیدل ہی چل رہے تھے، کالم نگار بھی چہل قدمی کیلئے نکلا تھا۔ میرے ساتھ دو اور نوجوان تھے ۔ ہم ٹہلتے ٹہلتے اپنے گاؤ ں سے دور نکل گئے۔ ندی کے اس پار کے گاؤں میں آگئے ۔ وہاں ایک گھر کے با ہر شنکر بھیااکڑوں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا گھر ندی کے سامنے ہے، اس کے قریب عید گاہ بھی ہے ۔ ہم نے ان سے پوچھا :’’کا ہو شنکر بھیا ،ٹھیک ٹھاک ہے نا...ا کوا کا بھوا..‘‘( کیا شنکر بھیا ٹھیک ہے نا ، اکا کیا ہوا؟)شنکر بھیا نے نظر اٹھائی ، ایک ایک چہرے کا جائز  ہ لیا اور جواب دیا :’’ ہاں ٹھیکے ہے ، بنہی بنہی کہاں نکلے ہا؟اکو اکا مت پوچھا ،اب کے اکاوکا کا پوچھے تھے۔‘‘( ہاں ٹھیک ہی ہے ، صبح صبح کہاں نکلے ہیں؟اکا کی مت پوچھئے ،اب کون اکا وکا کو پوچھتا ہے؟) ہم نے جواب دیا :’’ بس ایسوےٹہرے نکرے رہیں ۔‘‘( بس یوں ہی ٹہلنے نکلے تھے)اس سوال جواب کے بعد ہم آگے بڑھ گئے ۔
  شنکر بھیاکے اکاکاپہیہ بہت پہلے تھم گیا ہےلیکن آج بھی ان کی شناخت اکاوالے کی ہے۔ شنکربھیاکے ساتھ اکا والے  ان کےنام کا حصہ بن گیا ہے۔ ان  سے کچھ چھوٹے انہیں بھیا کہتے تھے پھر اس کے بعد کی نسل بھی انہیں بھیا ہی پکارنے لگی ، حالانکہ ان میںسے کتنوں کے وہ چچا، بڑے ابو ،دادا اور پردادا لگتے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں اکا چلاتے ہوئے دیکھا   ہے ۔ گرمی، سردی ، بہار اور برسات ہر موسم میںان کا اکا سڑکوںپر دوڑتا تھا۔ گاؤں کے پرانے لوگ کی زبان میں کہیں تو اکا ہی شنکر بھیاکی ’جان پران‘ تھا، یعنی ان کا سب کچھ تھا، سب سے قیمتی اثاثہ تھا ، اسی سے ان کی زندگی تھی، وہ اکاکی باگ ڈور سنبھالتے تھے، اور اکا ان کی زندگی کی باگ دوڑ ، اس طرح گاڑی چلتی تھی، دو وقت کی روٹی ملتی تھی۔ ان کے گھر کے باہر ہمیشہ خچر یا گھوڑا بندھا رہتاتھا، اسے کھلاتے پلاتے رہتے تھے ، موسم کی مار سے بچاتے تھے۔  یہ ان کے دروازے کی شان تھا۔ اس بے منہ کےجانور سے ان کی گہری دوستی تھی بلکہ دونوں کو ایک دوسرے سے گہر ا لگاؤ تھا ۔ شنکر بھیا کو سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اسی کی فکر رہتی تھی ۔ صبح ہوتے ہی  لے کر نکل جاتے تھے ، پھر شام کو سورج ڈوبنے کے بعد ہی گھر لوٹتے تھے ۔ کبھی کبھی گھر پہنچتے پہنچتے اندھیر ا چھاجا تا تھا۔ 
 گاؤں والے بتاتے ہیں کہ پہلے آمد ور فت کےذرائع نہیں تھے ، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا آسان نہیں تھا۔ اس وقت  عام طور پرلوگ پیدل سفر کرتے تھے    اس میں لٹنے کا خطرہ رہتا تھا ۔ راستے میں ڈاکو مل جاتے تھے ، ڈرادھمکا کر سب کچھ چھین لیتے تھے، پھر وقت بدلا۔  بوجھ ڈھونے کیلئے بیل گاڑی بنائی گئی ۔ انسان کے سفر کیلئے گھوڑاگاڑی بنائی گئی جسے  عام طور پر اکا کہا جاتا ہے۔ ایک زمانے تک گاؤں والوں کیلئے اکا ہی سب کچھ تھا، اسی سے ہاٹ بازا ر جاتے تھے ۔ 
  ایک بڑے میاںاکاسے اپنے  پہلےسفر کے بارے میں  بتاتے ہیں :’’ اس زمانے میں بچےکبھی کبھار ہی بازار جاتے تھے ، میری اکا سے بازار جانےکی خواہش تھی ، ایک دن  موقع ملا۔  دوپہر کا وقت تھا ، غالبا مئی جون کی گرمی تھی ،لو چل رہی تھی۔ میرےگھر کے بڑے بوڑھے اکا پر سوار ہوگئے  ۔ اکا اونچا تھا،  میرےلئے چڑھنا مشکل تھا،کسی طریقے سےمجھے اس پر  چڑھایا گیا ۔ اکا پر سوار ہونے کے بعد میری خوشی انتہانہ رہی لیکن سفر شروع ہونے کے بعد بری کٹ گئی ۔ سات آٹھ کلو میٹر کا فاصلہ تھا ، گھنٹوںمیں طے ہو ا۔ پیاس سے حلق سوکھ گیا تھا  ، راستے میں پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا، کوئی بازا ر نہیں تھا ، راستہ کچا تھا ۔ چلتے چلتے گھوڑا رکنے لگتا تھا ،اس پر اکا وان (اکا چلانے والا) چلاتا  تھا، اس پر چابک بھی برساتا تھا، کبھی کبھی جھلا جا تا تھا ۔ میںگھر والوں سے بار بارکہتا تھا: کب گھر آئے گا ؟ جلد ی چلو بہت پیاس لگی ہے۔ اس پروہ بہلاتے پھسلاتے تھے اور کہتے تھے : بس تھوڑی دیر اور صبر کرو ،قریب آگئے ہیں۔ پھر و ہ مجھے بہلانے  اور دھیان بھٹکانےکیلئے آس پاس کے جنگل ، پیڑ پودے ، کھیت، مویشی اور پرندے وغیر ہ دکھانے لگتے تھے۔   خیر کسی طرح کھینچ تان کر ہم گھر پہنچے تھے  ۔ یا د گار سفر تھا  ، آج تک نہیں بھولے ہیں۔ ‘‘      
  اسی طرح اکا سے بر سات کے موسم میں سفر اور دشو ار تھا ۔ اس وقت عام طور پر  راستےکچے تھے ، تھوڑی سی بارش میںمٹی پھول جاتی تھی ، پھر پھسلن ہوتی تھی ۔ راستے پر جگہ جگہ کیچڑ جمع ہو جا تا تھا ،اکا کھینچنے والے جانور کیلئے چلنا مشکل ہو جا تا تھا  ، کبھی کبھی جانور کے پھسلنے سے حادثہ بھی ہو جا تاتھا ۔ خون جما دینے والی سردی میں بھی اکا سے سفر آسان نہیں تھا ۔مسافروں کے بیٹھنے کی جگہ چاروں طرف سے کھلی رہتی تھی ،  ہرطرف سےسر د ہواؤں کے جھونکے آتے تھے ۔چند کلومیٹر کےسفر میں لوگ کانپنے لگتے تھے ۔ راستے میں رک رک کر آگ تاپتے تھے۔ اس طرح بڑی مشکل سے لوگ منزل پر پہنچتے تھے۔ 
 خوشگوارموسم میں اکاکا سفر باتوں ہی باتوں میں کٹ جا تا تھا ، احسا س ہی نہیں ہوتا تھا ۔ مسافر سب کچھ دیکھتے تھے ، ایک ایک چیز کا جائز ہ لیتے تھے۔یہاں تک کہ مور کا ناچ بھی دیکھتے تھے ، کوئل کی کوک بھی سنتےتھے ۔پھلوں سے لدے باغ کے قریب سے بھی گزرتے تھے۔اب موٹرگاڑیوں کےسفرمیںیہ سب کہاں نصیب  ہوتاہے؟

   12
7 Comments

Nagma khan

26-Jan-2022 03:50 PM

Bahut khoob sir ۔aap ki saari rachnaye padhti hu ۔

Reply

Zeba Islam

26-Jan-2022 08:58 AM

Bht khoob

Reply